08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط 2
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر2
اگلے دن یونی میں ۔۔۔۔۔
ہیلو مس۔۔۔۔
عثمان نے پیچھے سے پکارا جاتے ھوے وہ کھڑی ہو گئی ۔
جی بولیں۔۔۔۔۔ وہ انتظار میں تھی کہ بات سنے اور جائے۔ ۔
کچھ دن ہیں یونی کے پیپر کے بعد تو سب یہاں سے چلے جایں گے۔ آپ نے مجہے دیکھا ہوگا اگر نہیں تو کسی سے بھی پوچھ لیں۔ میں نے آج تک کسی لڑکی سے بات نہیں کی ۔
آپ کو پہلے دیکھا نہیں تھا آپ دوسرے سیکشن سے ہیں مجہے پتہ لگا۔
میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ عثمان بولنے سے کترا بھی رہا تھا اور بولا بھی نہیں جا رہا تھا اور کہنا بھی لازمی تھا ۔
بولیں جو کہنا ہے۔اب اسکو الجھن ہو رہی تھی۔
عثمان نے ہمت کر کے کہا میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
بول کر پھر اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں سوچ تھی۔
کیا آپ مجہے جانتے ہیں؟ اس کے سوال پر عثمان بولا نہیں۔
اس نے پھر پوچھا کیا آپ میرا نام میری فیملی کو جانتے ہیں؟
کیا مجہے دیکھا ہے ہر سوال پر عثمان نے نہیں میں جواب دیا۔
وہ لڑکی حیران تھی پھر کوئی تو وجہ ہوگی مجہے پروپوز کرنے کی۔
ہاں ایک ہی ہے اور وہ ہے آپ کا پردہ کرنا آپ کا لباس شرم اور حیا۔
کیا آپ کو انکار ہے یہ پوچھتے پتہ نہیں عثمان نے کیسے دل میں دعا کی اللہ میرا انکار نہ کرے۔
اس نے عثمان پر نظر ڈالی۔
اونچا قد گورا گندمی رنگ گھنگریا لے بال بادامی آنکھیں ہے تو سندر۔ مجہے مسلہ نہیں دل میں سوچ کر بولی۔
آپ میرے گھر بات کر لیں مجہے انہی کی مرضی پر چلنا ہے۔
جی ٹھیک۔ اور شکریہ کہ کر اپنے راستہ چل پڑا۔
دو دن بعد گھر گیا۔
امی جی مجہے آپ کے لئے بہو مل گئی ہے۔ مسکرایا
۔
اچھا ٹھیک ہے تو نے زندگی گزارنی ہے۔
ہم راضی ہیں۔
آج تیرے ابو سے بات کرتی ہوں پھر لے چلنا ادھر۔
عثمان خوش تھا۔
پیپر شروع ہو گئے وہ دیے پھر گھر کا پتہ کروایا اور جا پہنچا اپنے ماں باپ کے ساتھ۔
مرد بیٹھک میں بیٹھے اور عورتیں اندر۔
آمان نے اپنے بیٹے کے رشتہ کا بولا ہم آپ کی بیٹی کے لئے اے ہیں ۔
عثمان کی امی بانو نے اپنی بہو کو دیکھا خوبصورت تھی۔بیٹا تمہارا نام کیا ہے۔ وہ شرما کے بولی حور ۔پیارا نام ہے بلکل تمہاری طرح۔
چنی تو میرے بیٹے نے پیاری بچی ہے۔
خدا قسمت اچھی کرے۔
دعا دی یوں ہاں کروا کر واپس آ گئے۔
شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔
دیہات تھا منگنی اور باقی سب کا رواج زیادہ نہیں تھا۔
عثمان انتظار میں تھا کہ وہ پوچھے ہاں ہوئی یا نہ۔ بیٹا مبارک ہو۔تمہارا رشتہ پکا کر اے ہیں۔ امی مجہے نام اور صورت تو بتایں اپنی بہو کی ۔
ماں حیران ہوئی یہ سن کر پھر ہنسی۔
بھولا ہے میرا بیٹا سچ میں۔
اسکا نام حور ہے۔ اور بہت سوہنی ہے۔
عثمان خوش ہوا۔
ایک ماہ بعد حور عثمان کے گھر آ گئی۔
گولڈن ریڈ لہنگے میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔
سب نے تعریف کی بانو تیری بہو بہت پیاری ہے۔
سب نے اس کے بارے میں پوچھا۔
عثمان نے اسکو نقاب میں دیکھا تھا اب اسکو جلدی تھی اپنی بیوی کو دیکھنے کی پر دوست تو گپ شپ کے موڈ میں تھے۔
اسکو جانے ہی نہیں دے رہے تھے۔
ایک بولا یار دیکھا اب تو ہماری قدر ہی نہیں رہی۔ دیکھ کیسے بھاگنا چاہ رہا ہے۔
ایک نے کہا پہلے دن ہی یہ حالت ہے آگے کیا ہوگا۔ ہمیں تو بھول جائے گا۔
سب ہنس رہے تھے عثمان شرمندہ ہوا ایسا تو نہ بولو یار۔ بہت وقت تک دوستوں میں رہا۔
ادھر حور انتظار کرتی رہ گئی۔
ابھی تک نہیں آ رہے پھر انتظار میں ہی لیٹے سو گئی۔
دو بجے عثمان گھر آیا۔ کمرے میں دیکھا تو حور سویی ہوئی تھی۔ شرمندہ ہوا مجھ سے غلطی ہو گئی۔
ایک نظر ڈالی بہت سندر تھی وہ۔ حور کی نیند خراب نہیں کرتا اٹھا کر۔ یہ سوچ کر سو گیا۔
صبح جاگا تو نور نماز پڑھ رہی تھی۔ عثمان کبھی کبھی پڑھتا تھا۔
شرمندہ ہوا کیوں کہ اب وہ اسی کے کمرے کی مکین تھی۔
کل تمہیں دے نہیں سکا پھر نیکلس اسکو پہنآیا ۔
آئینہ کے سامنے لایا بہت اچھا لگ رہا ہے تم پر۔ حور خوش ہوئی۔
حور اچھی تھی گھر سنبھال لیا عزت دینا جانتی تھی۔
عثمان خوش تھا ہیرے جیسی بیوی پا کر کچھ ماہ چپ رہا پھر شکار کا شوق کھڑا ہوا دل میں۔
بیٹا تمہاری شادی ہو گئی ہے اب اپنی ذمہ داری سنبھالو۔ماں نے سمجھایا۔
چھوڑو یہ سب فضول کام۔
جی ماں کہ کر آ گیا دوستوں کے پاس۔
اب کیسے بولوں دوستوں کو۔ سوچا۔
جب دوستوں کو پتہ لگا تو انہوں نے جورو کا غلام کا لقب نوازا۔
اچھا ناراض نہ ہو تم سب جایں گے یار۔
اس کے ابو کو بھی غصہ آ گیا شرم نہیں آتی۔
بیوی امید سے ہے اور اس کے چال چلن نہیں بدلے۔ عثمان نے پھر بھی شکار کی تیاری شروع کردی کہ اس کے دوست اسکا مذاق نہ بنا لیں۔
حور چپ تھی کیا کہتی جب اسنے موڈ دیکھ لیا تھا شوہر کا پھر ضد کا فائدہ۔
کرنی تو عثمان نے اپنی تھی۔
خیر ہے آہستہ آہستہ ذمہ دار بن جایں گے پر میرا دل کیوں گھبرا رہا ہے ان کے جانے پر۔
کیسے روکوں جب امی ابو کے کہنے پر بھی نہیں رکے۔ پانی پیا حور نے گھبراہٹ میں۔
خدا حفاظت کریں گے میری دعا ہے۔
یوں ہفتہ کی تیاری کے بعد چھے دوستوں کا گروپ شکار کے لئے نکل پڑا۔